Thank you Genral Deepak Kapoor

No Comments

ایک پرانہ مقولہ ہے کہ:
"Politicians speak & speak but they seldom act. Judges and Generals only act. Their actions speak for them".
’’سیاستدان بہت بولتے ہیں لیکن عمل کم ہی کرتے ہیں۔ججز اور جرنیل صرف عمل کرتے ہیں ۔ اُنکی ترجمانی اُنکے عمل سے ہوتی ہے۔ـ‘‘سمجھ نہیں آتی کہ بھارتی آرمی چیف کو سیاسی بیانات دینے کا اتنا شوق کیوں ہے ۔ یہ کام تو سیاستدانوں کا ہے فوجی جرنیلوں کا نہیں حالانکہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ وہاں نہ تو سیاستدانوں کی کمی ہے نہ اُنکے شوقِ بیانات کی ، خصوصاً جب اُنکے بیانات کا تعلق پاکستان سے ہو۔
کہتے ہیں طاقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں پچھلے سال 25فیصد اضافہ کیا تھا اور یوں بھارت کا بجٹ 29.39بلین ڈالرز تک جا پہنچا جبکہ پاکستان کا بجٹ محض4 4.2بلین ڈالرز ہے جو بھارت کے مقابلے میـں کچھ بھی نہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے۔ ہمارے کوئی توسیع پسندانہ عزائم بھی نہیں۔ ہمیں اپنی مشکلات سے بھی نجات نہیں مل رہی۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ جنوبی ایشیاء کی سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بحرِ ہند پر مکمل کنٹرول چاہتا ہے۔اپنے آپ کو بین الاقوامی کردار کے لیے تیار کر رہا ہے۔
دنیا کی تیسری بڑی فوج رکھتا ہے، ایٹمی طاقت ہے،جدید ہتھیاروں کے ڈھیر لگا رکھے ہیں تو پھر لالہ بولے گا نہیں تو کیا کریگا؟طاقت کا نشہ تو بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیتا ہے۔ جنرل صاحب تو محض ایک فوجی ہیں۔ ویسے جب سے جنرل صاحب نے بھارتی فوج کی کمان سنبھالی ہے وہ وقتاً فوقتاً ایسے بیانات سے ہمیں مستفید کرتے رہتے ہیں۔ اپنی توپوں کا رُخ ہمیشہ پاکستان کی جانب رکھتے ہیں۔ سانحۂ ممبئی کے بعد بھی جنرل صاحب نے ایسے ہی بیانات دئیے تھے۔
اڑھائی ہزار سال پہلے مشہور چینی جنرل اور ملٹری تھنکر "Sun Tzu" نے کہا تھا:
"If you know the enemy & know yourself you need not fear the result of hundred battles." ـ
’’اگر آپ اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے بھی واقف ہیں تو آپ کو سو جنگوں کی بھی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘ یہی وہ کام ہے جو جنرل صاحب ہمیں وقتاً فوقتاً یاد دلاتے رہتے ہیں تاکہ ہم اپنے دشمن کو بھول نہ جائیں۔ میری نظر میں یہ اُنکا پاکستان پر سب سے بڑا احسان ہے کیونکہ ہمارے پاکستانی وڈیروں کو اکثر بھارت کے ساتھ دوستی کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ جنرل صاحب کے ایسے بیانات سے کم از کم ہمیں یہ تو احساس رہتا ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ وہ کیا سوچ رہا ہے اور ہمیں کیا کرنا ہے؟ جنرل صاحب نے نومبر 09ء میں ایٹمی پس منظر میں ایک محدود جنگ کی بات کی اور پھر دسمبر میں جوش میں آکر 96گھنٹو ں میں حملہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ ویل ڈن جنرل۔ ویل ڈن! لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جنرل نے حملے اور جنگ کی دھمکی ضرور دی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس جنگ کا نتیجہ کیا ہو گا؟ 1939ء میں ہٹلر کو بھی اسی قسم کا جوش چڑھاتھا۔ مُکّے تان کر دھمکیاں دیا کرتا تھا۔ اُس جنگ کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ 
مشہور فوجی سٹرٹیجٹ Sir Basil H Liddel Hart نے کہا تھا:
"Direct pressure always tends to harden and consolidate the resistance of an opponent."
’’ڈائریکٹ پریشر ہمیشہ مدِمخالف میں مقابلے کی قوت بیدار اور مضبوط کرتا ہے‘‘۔ جنرل صاحب کی دھمکی کا بھی بالکل یہی اثر ہوا ہے۔ جنرل صاحب کے ان بیانات کو پوری قوم نے محسوس کیا ہے۔ سب سے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بہت ہی مناسب انداز میں جواب دیا ۔ 
"Proponents of conventional application of military forces in a nuclear hangover are charting an adventurous and dangerous path, the consequenses of which could both be unintended and uncontrollable."
۔’’ ایٹمی اسلحہ کے پس منظر میں روایتی جنگ کے لیے فوجیں صف آرا کرنا ایک ایسی مہم جوئی ہے جس کے خطر ناک نتائج غیر متوقع اور ناقابل کنٹرول ہو سکتے ہیں۔‘‘ جنرل کیانی کا بیان بالکل درست اور بر محل ہے کیونکہ بھارت کو اور جنرل کپور کو بالکل پتہ ہے کہ پریشر میں پاکستان کیا کر سکتا ہے۔ یقینا انہیں غلط فہمی نہیں ہو گی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعد چئیر مین جوانٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کا بیان بھی بہت بروقت ہے۔ 
" Leave alone China, General Deepak Kapoor knows very well what the Indian Army can not & the Pakistan Army can pull off Militarily." 
’’چین تو رہا ایک طرف جنرل دیپک کپور کو پوری طرح معلوم ہے کہ جو کچھ بھارتی فوج نہیں کر سکتی وہ پاکستانی فوج کر سکتی ہے۔‘‘
قارئین یہ تو جواب رہا پاکستان آرمی کی طرف سے لیکن جنگ صرف فوج نہیں لڑتی پوری قوم لڑتی ہے اور جنرل دیپک کپور کے ان بیانات نے پوری قوم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ جنگ کا نتیجہ تو وقت آنے پر دیکھا جائیگا لیکن قوم میں جو جذبہ بیدار ہو اہے وہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یقین رکھیں کہ کسی بھی فوج کو تو شکست دی جاسکتی ہے لیکن قوم کو نہیں۔ قوم کا جب تک ایک فرد بھی زندہ رہتا ہے قوم زندہ رہتی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ بھارتی جنرل کے بیانات نے پوری قوم کو احساس دلا دیا ہے کہ ہمارا دشمن کون ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو بھارت کی شرافت کے گن گاتے تھے۔’’ بھارت سے ہمیں کوئی خطرہ نہیـں‘‘۔ جیسے بیانات دیتے تھے۔ انہیں بھی اپنی نادانی کا احساس ہوا ہے۔ پوری قوم کے ہر فرد نے کھل کر ان بیانات کی مذمت کی ہے۔ ہمارے تھنک ٹینکس، سیاستدان، دفاعی مبصرین، تجزیہ نگار اور اہل قلم حضرات اور عام شہریوں نے بھی دل کھول کرتنقید کی۔ ان بیانات کا ہر زاویے سے تجزیہ کیا جس سے پاکستان کی بہت بہتری ہوئی ہے۔ جنرل طارق مجید صاحب اور ہمارے نیول چیف چین گئے اور وہاں 15دسمبر کو ایک فوجی تعاون کے تاریخی معاہدہ پر دستخط کئے۔ پاکستان کیلئے زیر تعمیر Frigates Fv22 P کا معائنہ کیا اور JF-17 Thunder ائیر کرافٹ کمپنی میں بھی گئے۔ اس سلسلے میں مزید تعاون پر بھی بات ہوئی ۔ دونوں ممالک نے دفاعی تعاون میں مزید پیش رفت کی اہمیت اور ضرورت پر زوردیا جو کہ قوم کیلئے ایک اچھا شگُون ہے۔ اُسکے بعد چین کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بھی پاکستان تشریف لائے اور عملی تعاون کی منصوبہ بندی مکمل کر لی‘ یہ ایک بہترین پیش بندی ہے۔ ان فوجی تیاریوں کے علاوہ خوشی کی بات یہ ہے کہ صدرمحترم بھی اپنے بنکر سے باہر نکلے اور طوفانی دورے شروع کئے۔ آزاد کشمیر بھی تشریف لے گئے اور پہلی دفعہ بھارتی دھمکی کا جواب دھمکی سے دیا۔ ’’ہم نے پاکستان حاصل کیا ہے کشمیر بھی حاصل کرینگے۔‘‘
پھر انہی دنوں کمانڈ اینڈکنٹرول اتھارٹی کی میٹنگ ہو ئی جو کافی عرصے سے ملتوی چلی آ رہی تھی۔ اس میٹنگ میں بھارتی دھمکی کا تفصیلاً جائزہ لیا گیا اور جوابی کارروائی پر غور کیا گیا ۔ جوابی منصوبہ بندی بھی مکمل کی گئی اور جناب وزیر اعظم نے مناسب طور پر جواب بھی دیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ جب کسی قوم کے عام فرد سے لیکر صدر مملکت تک ملکی حفاظت کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں تو بھلا اس سے بہتر اور کیا بات ہو سکتی ہے؟ہماری تمام تر کوششیں ایسا رنگ نہیں لا سکتی تھیں۔ لہٰذا تھینک یو جنرل ! تھینک یو ۔ آپ نے ہمارے لیے وہ کچھ کیا ہے جو کچھ ہم خود نہیں کر سکتے تھے۔
فاٹا کی جنگ سے جان چھڑانے کا بھی یہ بہترین موقع ہے اور شاید اس قسم کی کوشش کی ابتداء بھی ہو چکی ہے۔ کچھ ایسی خبریں گردش میں ہیں کہ فاٹا میں فوج کی جگہ فرنٹئیر کور کے دستے تعینات کیے جارہے ہیں اور یہ بالکل درست فیصلہ ہے۔ ان علاقوں میں امن قائم کرنا فرنٹئیر کور کا کام ہے۔ فوج اپنی مشرقی سرحد کی حفاظت کیلئے فارغ ہو جائیگی۔ 
محسود قبائل سے امن معاہدے پر بھی تقریباً تقریباً تصفیہ ہو چکا ہے ۔ افواجِ پاکستان نے اس سال دہشتگردوں کیخلاف کوئی مزید محاذ نہ کھولنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ جنرل صاحب نے ہمیں ایسا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

back to top